وزیراعلی بلوچستان کے نام چند گذارشات

تحریر: مسعود خان 
بلوچستان کے نئے منتخب وزیر اعلیٰ میر سرفراز احمد بگٹی نے گزشتہ دنوں اپنے عہدے کا حلف لے لیا۔ انہوں نے اسمبلی سے اپنے پہلے خطاب میں بلوچستان کی ترقی اور خوشحالی کے لیے اپنے عزائم کا اظہار کیا۔ جس میں تقریباً تمام اہم شعبوں کی بہتری کی بات کی گئی۔اس سلسلے میں چند مذید گزارشات پیش کرنا چاہیں گے جن پر طویل عرصے سے گزشتہ کسی صوبائی حکومت نے خاطرخواہ توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے بلوچستان کی کارکردگی دیگر تمام صوبوں سے کم تر رہی۔ امن و امان کسی بھی حکومت کی پہلی ترجیح ہوتی ہے۔ امن وامان کی بہتر یا ابتر صورتحال کا گورننس سے براہ راست تعلق ہے۔ اس کے لیے صوبے میں پولیس کا کلیدی کردار ہے۔ صوبے کے ڈویژنز اور اضلاع میں نیک نام آفیسرز کی تعیناتی امن وامان کی صورتحال کو کافی بہتربنا سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ محکمہ پولیس کو تمام ضروری وسائل ہر صورت فراہم کرنے چاہیے۔بلوچستان میں اے اور بی ایریا کی تفریق کی وجہ سے کافی مسائل ہیں۔پولیس کے پاس صرف صوبے کا دس فیصد ہے باقی نوے فیصد ایریا میں امن و امان کو برقرار رکھنے میں پولیس کے پاس اختیارات ہی نہیں۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ صوبے میں امن و امان کو برقرار رکھنے والی پولیس کے اہلکاروں کے لیے کوئی ہسپتال نہیں۔ تھانہ کلچر بدلنے کے لیے پولیس کے سابق آفیسرز سے مشاورت کی جائے تاکہ پرانا تھانہ کلچر تبدیل ہواور تھانے میں عوام کا عزتِ نفس کا ہر صورت خیال رکھا جائے۔گورننس کی ابتر صورتحال پورے صوبے کی کارکردگی کو متاثر کررہی ہے۔میرٹ پر حکوم ہمتی اہلکاروں کی تعیناتی صوبے کے گورننس کے معاملے کو بہتر بنا سکتی ہے اس کے ساتھ ساتھ تمام اہم سرکاری اہلکاروں کو پوسٹنگ دیتے وقت قلیل،وسط اور طویل مدت کے اہداف دینے چاہیے تاکہ ان کی کارکردگی پرنظر رکھی جاسکے۔ صحت کا شعبہ انتہائی زبوں حالی کا شکار ہے۔تعجب اور افسوس کی بات یہ ہے کہ بلوچستان میں صحت کے متعلق اعدادوشمار کا دیکھا جائے تو یہ جنوبی ایشیاء کے میں بدترعلاقوں میں شمار ہوتا ہے مثلاً زچگی کے دوران اموات،بچوں کا پیدائش کے پہلے پانچ سال میں مرنا یا پھراپنے عمر کے حساب سے نارمل وزن اور قد تک نہ پہنچنا اور متوازن غذا کے نہ ملنے کی وجہ سے دیگر مسائل جس کی وجہ سے بلوچستان کے نومولود بچے دیگر صوبوں سے وزن، قد اور ذہنی صحت میں پیچھے ر ہ جاتے ہیں۔اس سلسلے میں دیہی آبادی کی صورتحال اور بھی تشویش ناک ہے۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے کہ صوبے کے عوام علاج کے لیے دوسرے صوبوں کا رخ کرتے ہیں۔ ہسپتالوں میں ڈاکٹرز،پیرامیڈیکس کی حاضری اورکمی جب کہ ادویات اور مشینری کے نہ ہونے کی وجہ سے صوبے کے سرکاری ہسپتال صرف عمارتیں رہ گئی ہیں۔ کروڑوں روپے خرچ کرنے کے باوجود عوام کو صحت کے لیے پرائیوٹ ہسپتالوں کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ اس سلسلے میں جنگی بنیادوں پر کام کی ضرورت ہے۔ بلوچستان میں سابقہ حکومتوں نے تعلیمی ایمرجنسی کا اعلان کیا مگر اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ تعلیم کے شعبے میں کچھ بہتری نہیں آئی۔اب بھی بلوچستان کے بیس لاکھ سے زائد بچے سکولز سے باہر ہیں۔ 68فیصد بچیاں سکو ل نہیں جاتیں۔ تعلیمی بہتری کے لیے سکول، کالجز اور یونیورسٹیز کے اساتذہ سے مل کے لائحہ عمل بنایا جائے، اساتذہ کے لیے مراعات دے کر صوبے کے ذہین افراد کو تعلیمی شعبے کی جانب راغب کیا جاسکتا ہے۔ زراعت کا شعبہ صوبے کے معیشت میں ایک اہم کردار ادا کررہا ہے۔ بلوچستان کے پاس دنیا کی زرخیز زمین بنجر پڑی ہے۔ زرعی ماہرین کے مطابق بلوچستان کا بیشتر علاقے پستہ کی کاشت کے لیے موزوں ہیں۔ پستہ کو آج کل ”سبز سونا “ کہا جاتا ہے۔ ہمسایہ ملک ایران ہر سال صرف پستہ سے لاکھو ں ڈالرز کماتا ہے۔اس کے علاقہ بلوچستان زیتون کی کاشت کے لیے موزوں ترین علاقہ شمار کیا جاتا ہے۔ زیتون کی جانب مناسب توجہ دے کر یہاں کی غربت کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔زمین کو ہموار کر کے اور معیاری بیج فراہم کرکے زراعت کے شعبے میں انقلاب برپا کیا جاسکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ حیوانات کے شعبے کی جانب بھی فوری توجہ کی ضرورت ہے بلوچستان میں مالداری کی وجہ سے لاکھوں افراد کا روزگار وابستہ ہے مگر حکومتی سرپرستی نہ ہونے کی و جہ سے یہ شعبہ ابتری کا شکار ہے۔ بلوچستان میں اہم سیاحتی اور تاریخی مقامات موجود ہیں لیکن وہاں سیاحوں کی سہولت کے بنیادی ضروریات کی کمی ہے سیاحتی اور تاریخی مقامات کو سیاح دوست بنا کر یہاں سیاحوں کوراغب کیا جاسکتا ہے۔ جس سے یہاں کے مقامی لوگوں کو بلواسطہ اور بلاواسطہ روزگار کے مواقع مل سکتے ہیں اور بے روزگاری میں واضح کمی لائی جاسکتی ہے۔ صوبائی حکومت کو اپنے اخراجات میں واضح کمی لانا ہوگی اور حکومتی امور میں سادگی کو اپناناہوگا۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبے سارے معاملات میں خود مختیار ہوچکے ہیں لیکن تاحال بلوچستان اٹھارویں ترمیم کے فوائد نہیں سمیٹ سکا ہے۔ بلدیاتی اداروں کو فعال کرکے اور انہیں فنڈز کی فراہمی سے مسائل کو نچلی سطح پر حل کیا جاسکتا ہے۔ سرکاری ملازمتوں میں ہرصورت میرٹ کو یقینی بنایا جائے سابقہ صوبائی حکومت نے اپنے آخری ایام میں یہ اعلان کیا کہ کلاس فور کے علاوہ باقی تمام آسامیوں پر بھرتی بلوچستان پبلک سروس کمیشن کے ذریعے ہوگی اور پبلک سروس کمیشن کا دائرہ ڈویژنز تک پھیلایا جائے گا۔ سابقہ حکومت کے بیشتر وزراء موجودہ سیٹ کا بھی حصہ ہیں۔ نئے صوبائی حکومت کو بھی نئی بھرتیاں پبلک سروس کمیشن کرنے کے احکامات جاری کرنے چاہیے تاکہ بھرتیوں میں شفافیت یقینی ہو اور میرٹ کی پامالی یا اقربا پروری نہ ہو۔صوبے میں ادبی تنظیموں کی سرپرستی اورمقامی زبانوں کے فروغ کے لیے عملی اقدامات اٹھانے چاہیے۔ بلوچستان کی آبادی کا 65فی صد نوجوانوں پر مشتمل ہے انہیں جدید دور سے ہم آہنگ کرنے اور آن لائن کمائی کے قابل بنانے کے لیے بنائے گئے اداروں کا دائرہ صوبے کے دور دراز علاقوں تک پھیلانا چاہیے اس سلسلے میں DigiBizz دائرے کو بتدریج پورے صوبے تک پھیلایا جائے یہ ایک زبردست قدم تھا جس کی وجہ سے صرف چند عرصے میں صوبے کے نوجوانوں نے چار ماہ کی مختصر ٹریننگ کے بعد ہزاروں ڈالرز کمائے۔ صوبہ معدنی ذخائر کے لحاظ سے دنیا کے امیر ترین علاقوں میں شمار ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے معدنی ذخائر سے وہ فائدہ نہیں اٹھایا جاسکا جو کو اٹھانا چاہیے تھا۔ جہاں جہاں سے معدنی ذخائر نکل رہے ہیں وہاں کی مقامی آبادی تک اس کے فوائد نہیں ملے اس لیے کان کنی اوردیگر معدنی ذخائر نکالنے والوں کے لیے یہ لازمی قرار دیا جائے کہ ان کی آمدنی کا کچھ حصہ مقامی آبادی کے بنیادی ضروریات کی تکمیل کے لیے استعمال کیا جائے۔ان تجاویز پر عمل ہوتا ہے تو بلوچستان ایک ماڈل صوبہ بن سکتا ہے اور یہ صوبہ امن اور خوشحالی کو گہوارہ بن سکتا ہے۔

Post a Comment

1 Comments